مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جنازوں کا بیان ۔ حدیث 19

موت کی سختی بلندی درجات کی علامت ہے

راوی:

وعن عائشة رضي الله عنها قالت : مات النبي صلى الله عليه و سلم بين حاقنتي وذاقنتي فلا أكره شدة الموت لأحد أبدا بعد النبي صلى الله عليه و سلم . رواه البخاري

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سینہ اور گردن کے درمیان وفات پائی، میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی شخص کی موت کی سختی کو کبھی برا نہیں سمجھتی۔ (بخاری)

تشریح
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ارشاد کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات اس حالت میں ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سہارا لئے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک میرے سینہ اور گردن کے بیچ رکھا ہوا تھا لہٰذا میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حالت نزع کی کتنی شدید تکلیف میں مبتلا تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت کتنی سخت تھی!۔
حدیث کے دوسرے جزو فلا اکرہ شدۃ الموت کا مطلب یہ ہے کہ پہلے تو میں یہ سمجھتی تھی کہ حالت نزع کی تکلیف اور موت کی سختی گناہوں کی کثرت کی وجہ سے ہوتی ہے لیکن جب میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موت دیکھی تو مجھے معلوم ہوا کہ موت کی سختی گناہوں کی کثرت اور خاتمہ بالخیر نہ ہونے کی علامت نہیں ہے بلکہ موت کی سختی اور سکرات الموت کی شدت بلندی درجات کے لئے ہوتی ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ موت کی آسانی اور سکرات الموت میں تخفیف بزرگی اور فضیلت کی بات نہیں ہے کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فضیلت بطریق اولیٰ حاصل ہوتی۔

یہ حدیث شیئر کریں