مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ جن لوگوں کو سوال کرنا جائز کرنا جائز ہے اور جن کو جائز نہیں ہے ان کا بیان ۔ حدیث 346

مستغنی سائل کے لئے وعید

راوی:

وعن سهل بن الحنظلية قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " من سأل وعنده ما يغنيه فإنما يستكثر من النار " . قال النفيلي . وهو أحد رواته في موضع آخر : وما الغنى الذي لا ينبغي معه المسألة ؟ قال : " قدر ما يغديه ويعشيه " . وقال في موضع آخر : " أن يكون له شبع يوم أو ليلة ويوم " . رواه أبو داود

حضرت سہل بن حنظلیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص کے پاس اتنا مال ہو جو اس کو مستغنی کر دے مگر وہ اس کے باوجود لوگوں سے سوال کرتا ہے تو گویا وہ زیادہ آگ مانگتا ہے یعنی جو شخص بغیر ضرورت و حاجت کے لوگوں سے مانگ مانگ کر مال و زر جمع کرتا ہے تو وہ گویا دوزخ کی آگ جمع کرتا ہے۔ نفیلی رحمہ اللہ جو اس حدیث کے راویوں میں سے ایک راوی ہیں ایک اور جگہ یعنی ایک دوسری روایت میں نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مستغنی ہونے کی کیا حد ہے کہ اس کی موجودگی میں دوسرے لوگوں سے مانگنا ممنوع ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صبح اور شام کے بقدر۔ نفیلی نے ایک اور جگہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جواب اس طرح نقل کیا ہے کہ اس کے پاس ایک دن یا ایک رات و ایک دن کے بقدر خوراک ہو راوی کو شک ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک دن فرمایا یا ایک رات و ایک دن فرمایا ہے۔ (ابو داؤد)

تشریح
صبح اور شام کے کھانے کے بقدر، مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے پاس اتنی مقدار میں غذائی ضروریات موجود ہوں کہ وہ دن و رات اپنا پیٹ بھر سکے تو وہ غنی کہلائے گا یعنی اس کے لئے اب جائز نہیں ہو گا کہ وہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے۔
ابھی اس سے پہلے حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی جو روایت گزری ہے اس سے تو یہ معلوم ہوا کہ مال کی تعداد کہ جس کی وجہ سے آدمی مستغنی ہو جائے اور کسی سے سوال نہ کرے، پچاس درہم ہے یعنی جو شخص پچاس درہم کا مالک ہو گا اس کے لئے کسی سوال کرنا حرام ہو گا یہاں جو یہ روایت نقل کی گئی ہے اس میں یہ مقدار صبح و شام کے کھانے بقدر بیان کی گئی ہے اور اس کے بعد حضرت عطاء بن یسار کی جو روایت آ رہی ہے اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جو شخص ایک اوقیہ یعنی چالیس درہم کا مالک ہو وہ مستغنی کہلائے گا اس کے لئے کسی سے سوال کرنا مطلقاً جائز نہیں ہو گا۔
گویا یہ تین روایتیں ہیں جن میں باہم اختلاف ہے لہٰذا حضرت امام احمد، ابن مبارک اور اسحاق رحمہم اللہ کا عمل تو پہلی روایت پر ہے جو ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے ، بعض علماء نے تیسری روایت کو معمول بہا قرار دیا ہے۔ جو عطاء بن یسار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے اور حضرت اماما عظم ابوحنیفہ نے دوسری روایت کو اپنے مسلک کی بنیاد و قرار دیا ہے جو سہیل بن حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے لہٰذا حضرت امام اعظم کا یہی مسلک ہے کہ جو شخص ایک دن کی غذائی ضروریات کا مالک ہو گا وہ مستغنی کہلائے گا اور اس کے لئے کسی سے سوال کرنا حرام ہو گا، گویا حضرت امام صاحب کے نزدیک یہ حدیث دوسری احادیث کے لئے ناسخ ہے۔ و اللہ اعلم۔

یہ حدیث شیئر کریں