مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ ذکراللہ اور تقرب الی اللہ کا بیان ۔ حدیث 799

اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے ذاکرین پر فخر کرتا ہے

راوی:

عن أبي سعيد قال : خرج معاوية على حلقة في المسجد فقال : ما أجلسكم ؟ قالوا : جلسنا نذكر الله قال : آلله ما أجلسكم إلا ذلك ؟ قالوا : آلله ما أجلسنا غيره قال : أما إني لم أستحلفكم تهمة لكم وما كان أحد بمنزلتي من رسول الله صلى الله عليه و سلم أقل عنه حديثا مني وإن رسول الله صلى الله عليه و سلم خرج على حلقة من أصحابه فقال : " ما أجلسكم هاهنا " قالوا : جلسنا نذكر الله ونحمده على ما هدانا للإسلام ومن به علينا قال : " آالله ما أجلسكم إلا ذلك ؟ قالوا : آ الله ما أجلسنا إلا ذلك قال : " أما إني لم أستحلفكم تهمة لكم ولكنه أتاني جبريل فأخبرني أن الله عز و جل يباهي بكم الملائكة " . رواه مسلم

حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک حلقہ کے پاس پہنچے جو ایک مسجد میں جما ہوا تھا انہوں نے حلقہ والوں سے پوچھا کہ تمہیں یہاں کس چیز نے بٹھایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہم اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کے لئے بیٹھے ہوئے ہیں۔ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ واللہ (کیا) تمہیں اللہ کے ذکر ہی نے یہاں بٹھایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ کی قسم! اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں صرف اللہ کے ذکر ہی نے یہاں بٹھایا ہے؟ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا دیکھو! میں نے تم پر تہمت رکھنے کے لئے تمہیں قسم نہیں دی (یعنی تمہیں جھوٹا سمجھ کر تم سے قسم نہیں کھلوائی بلکہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع کے پیش نظر قسم کہلوائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی اسی طرح کہا تھا (جیسا کہ آگے حدیث میں آتا ہے) اور پھر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کو کم نقل کرنے کے سلسلہ میں میرے برابر کوئی تھا (یعنی میں احتیاطا بہت کم احادیث روایت کیا کرتا تھا کہ مبادا کہیں کوئی کمی و زیادتی ہو جائے اور پھر اس کا وبال میری گردن پر ہو اس بات سے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد یہ آگاہی تھی کہ روایت حدیث میں مجھ سے کوئی بھول نہیں ہوتی کیونکہ نسیان کا احتمال تو اسی شخص کے لئے ہوتا ہے جو بہت زیادہ روایت کرے اور ظاہر ہے کہ میں ایسا نہیں تھا) ۔ بہر کیف حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ اسی طرح ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کے ایک حلقہ کے پاس پہنچے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ یہاں تمہیں کس چیز نے بٹھایا ہے (یعنی یہاں کس مقصد کے لئے جمع ہو کر بیٹھے ہو) صحابہ نے عرض کیا ! ہم یہاں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں اور ہم اس کی اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ اس نے ہمیں اسلام کی ہدایت بخشی اور اس کے ذریعہ ہم پر احسان کیا۔ آنحضرت نے فرمایا کہ واللہ (کیا) تمہیں صرف اسی چیز نے یہاں بٹھایا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں اس چیز نے یہاں بٹھایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو میں تم پر جھوٹ کی تہمت رکھنے کے لئے تم سے قسم نہیں کہلوائی بلکہ میرے پاس جبرائیل آئے اور انہوں نے مجھے بتایا کہ اللہ عزوجل اپنے فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کرتا ہے۔ (مسلم)

تشریح
آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغرض تاکید و توثیق ارباب حلقہ سے بہ قسم پوچھا نہ یہ کہ اللہ نخواستہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کو اپنی بات میں سچا نہیں سمجھتے تھے۔
حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کے نیک بندے آپس میں حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں اور اللہ کے ذکر اور اس کی یاد میں اجتماعی طور پر مشغول ہوتے ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے ان بندوں کو دیکھو میں نے ان کے اوپر ان کے نفس ان کی خواہشات اور شیاطین کو کس طرح سے مسلط کیا ہے مگر یہ اس کے باوجود میری عبادت میں اور میرے ذکر میں مشغول ہیں لہٰذا ان کی اس شان عبودیت کا تقاضہ یہ ہے کہ ان کی تعریف تم سے زیادہ کی جائے اس لئے تمہیں تو میری عبادت میں کوئی مشقت اور تکلیف نہیں ہوتی لیکن ان کی عبادت تو تمہاری عبادت کی بہ نسبت ایسی ہے کہ اس میں محنت تکلیف اور سراسر مشقت ہی مشقت ہے۔

یہ حدیث شیئر کریں