مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ مال غنیمت کی تقسیم اور اس میں خیانت کرنے کا بیان ۔ حدیث 1103

مال فئی میں کوئی خصوصی حصہ نہیں

راوی:

وعن أبي الجويرية الجرمي قال : أصبت بأرض الروم جرة حمراء فيها دنانير في إمرة معاوية وعلينا رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه و سلم من بني سليم يقال له : معن بن يزيد فأتيته بها فقسمها بين المسلمين وأعطاني منها مثل ما أعطى رجلا منهم ثم قال : لولا أني سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول : " لا نفل إلا بعد الخمس " لأعطيتك . رواه أبو داود

اور حضرت ابوجویریہ کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ کی خلافت کے زمانہ میں (ایک دن ) میں نے روم کی زمین میں ایک سرخ رنگ کی ٹھل یا پائی جس میں دینار ( بھرے ہوئے ) تھے ، اس وقت ہمارے علاقے کے حاکم ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے ایک شخص تھے جن کا نام معن ابن یزید تھا ، میں وہ ٹھلیا لے کر ان کے پاس آ یا ، انہوں نے ان دیناروں کو مسلمانوں ( یعنی مجاہدین اسلام) کے درمیان تقسیم کر دیا اور ان میں سے مجھ کو بھی اتنا ہی دیا ، جتنا کسی ایک شخص کے حصے میں آیا تھا ( یعنی مجھے بھی سب کے برابر دیا کوئی زیادہ حصہ نہیں دیا ) اور پھر انہوں نے فرمایا کہ اگر میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے نہ سنا ہوتا کہ " خمس نکالنے کے بعد ہی حصے سے زیادہ دیا جا سکتا ہے ۔" تو یقینا میں بھی تمہیں دوسروں سے زیادہ ) دیتا ۔ " ( ابوداؤد )

تشریح :
حضرت معن ابن یزید کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق کسی مجاہد کو مخصوص طور پر کوئی زیادہ حصہ اس مال میں سے دیا جا سکتا ہے جس میں سے خمس نکالنا ضروری ہو اور وہ خمس نکالا جا چکا ہو ، اور یہ ظاہر ہے کہ خمس اس مال میں سے نکالا جاتا ہے جو کفار سے جنگ و جدال کے بعد ہاتھ لگا ہو جس کو مال غنیمت کہتے ہیں جب کہ یہ مال جو تمہارے ہاتھ لگا ہے " مال فئی " ہے ، اور " مال فئی " میں کوئی زائد حصہ نہیں لگتا اس لئے تمہیں بھی اس مال میں سے دوسرے سے زیادہ نہیں ملے گا ۔

یہ حدیث شیئر کریں