مشکوۃ شریف ۔ جلد سوم ۔ حدود کا بیان ۔ حدیث 737

ماعز کے واقعہ زنا کی ایک اور تفصیل

راوی:

وعن يزيد بن نعيم بن هزال عن أبيه قال : كان ماعز بن مالك يتيما في حجر أبي فأصاب جارية من الحي فقال له أبي : ائت رسول الله صلى الله عليه و سلم فأخبره بما صنعت لعله يستغفر لك وإنما يريد بذلك رجاء أن يكون له مخرجا فأتاه فقال : يا رسول الله إني زنيت فأقم علي كتاب الله حتى قالها أربع مرات قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إنك قد قلتها أربع مرات فبمن ؟ " قال : بفلانة . قال : " هل ضاجعتها ؟ " قال : نعم قال : " هل باشرتها ؟ " قال : نعم قال : " هل جامعتها ؟ " قال : نعم قال : فأمر به أن يرجم فأخرج به إلى الحرة فلما رجم فوجد مس الحجارة فجزع فخرج يشتد فلقيه عبد الله بن أنيس وقد عجز أصحابه فنزع له بوظيف بعير فرماه به فقتله ثم أتى النبي صلى الله عليه و سلم فذكر ذلك له فقال : " هلا تركتموه لعله أن يتوب . فيتوب الله عليه " . رواه أبو داود

اور حضرت یزید ابن نعیم ابن ہزال اپنے حضرت نعیم ابن ہزال سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے یعنی حضرت نعیم نے کہا کہ ماعز ابن مالک یتیم تھا میرے والد حضرت ہزال کی پرورش میں تھا اس نے جوان ہو کر محلہ کی ایک لونڈی سے زنا کر لیا جب میرے والد کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے کہا کہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلا جا اور جو کچھ تو نے کہا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دے شاید آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تیری مغفرت کی دعا کر دیں اور میرے والد کے اس کہنے کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں تھا کہ استغفار گناہ سے اس کی نجات کا سبب بن جائے یعنی میرے والد کا یہ مقصد نہیں تھا کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جائے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کو سنگسار کئے جانے کا حکم دیں جیسا کہ بعض لوگوں نے سمجھا ہے ماعز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے آپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات سن کر اپنا منہ اس کی طرف سے پھیر لیا وہ وہاں سے ہٹ گیا اور پھر آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ! مجھ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا ہے آپ مجھ پر کتاب اللہ کا حکم جاری کیجئے یہاں تک کہ اس نے یہ بات چار بار یعنی چار مجلسوں میں کہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو نے یہ بات چار بار کہی یعنی چار بار اقرار کرنے سے تیرا جرم زنا ثابت ہوگیا ہے اب یہ بتا کہ تو نے کس کے ساتھ زنا کیا ہے اس نے نام لے کر کہا کہ فلاں عورت کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اس کے ساتھ ہمخواب یعنی آغوش ہوا تھا اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اس کے بدن کو اپنے بدن سے لپٹایا تھا ؟ اس نے کہا ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو نے اس کے ساتھ جماع کیا تھا ؟ اس نے کہا ہاں اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سنگسار کرنے کا حکم دیا ۔ چنانچہ اس کو حرہ لے جایا گیا اور جب وہاں سنگسار کیا جانے لگا اور اسے پتھروں کی چوٹ لگنے لگی تو وہ بدحو اس ہو گیا یعنی وہ پتھروں کی چوٹ برداشت نہ کر سکا اور جہاں سنگسار کیا جا رہا تھا وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا راستہ میں اس کو عبداللہ ابن انیس ملے جن کے ساتھی یا ماعز کو سنگسار کرنے والے تھک گئے عبداللہ نے اونٹ کے پاؤں کی ہڈی اٹھائی اور اس سے ماعز کو مارا یہاں تک کہ انہوں نے اس کو ختم کر ڈالا اس کے بعد عبداللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سارا واقعہ بیان کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے اس کو چھوڑ کیوں نہیں دیا شاید وہ اپنے اقرار سے رجوع کر لیتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر کے سنگساری کئے بغیر ہی اس کا گناہ معاف کر دیتا ۔" (ابو داؤد ) ۔

تشریح :
اس کو حرہ لے جایا گیا ، ابن حمام کہتے ہے کہ صحیح بخاری کی روایت میں تو یہ ہے کہ ماعز کو مصلی میں سنگسار کیا گیا اور مسلم اور ابوداؤد کی ایک روایت میں یہ ہے کہ اس کو بقیع غرقد لے جایا گیا ان دونوں روایتوں میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے لیکن اگر یہ بات ملحوظ رہے کہ مصلی سے نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ مراد ہے اور نماز جنازہ پڑھنے کی جگہ وہیں بقیع غرقد میں تھی تو پھر کوئی تضاد نہیں رہے گا رہی یہ بات کہ ترمذی کی روایت میں جو یہ منقول ہے کہ ماعز کے چوتھی بار اقرار کرنے کے بعد اس کو سنگساری کا حکم جاری کیا گیا چنانچہ اس کو حرہ لے جایا گیا اور وہاں سنگسار کیا گیا جیسا کہ یہاں ابوداؤد کی روایت میں بھی یہی ہے کہ اس کو حرہ لے جایا گیا تو اس کی تاویل یہ کی جائے گی کہ جب وہ پتھروں کی چوٹ کھا کر بھاگا تو اس کا پیچھا کیا گیا تاآنکہ اس کو حرہ لے جایا گیا تو اس کی تاویل کی ضروری ہے کہ پھر یہ بات صحیح ثابت نہیں ہوگی کہ ماعز کو سنگسار کرنے کے لئے حرہ لے گیا تھا کیونکہ صحاح اور حسان کی روایتیں اس بات کی موئید ہیں کہ شروع میں ماعز کو سنگسار کرنے کے لئے حرہ کی طرف نہیں لے جایا گیا تھا بلکہ جب اس کو سنگسار کیا جانے لگا تو وہ خود بھاگ کر حرہ چلا گیا تھا یا یہ توجیہ کی جائے کہ مصلی جہاں ماعز کو سنگسار کیا گیا حرہ ہی کے آس پاس ہوگا لہٰذا کسی راوی نے تو مصلی کا ذکر کیا اور کسی راوی نے حرہ کا اس صورت میں دونوں احادیث کے مفہوم میں یکسانیت پیدا ہو جائے گی ۔

یہ حدیث شیئر کریں