مشکوۃ شریف ۔ جلد چہارم ۔ نیکی و صلہ رحمی کا بیان ۔ حدیث 856

والدین اور اقرباء کے ساتھ حسن سلوک درازی عمر کا سبب ہے

راوی:

عن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يرد القدر إلا الدعاء ولا يزيد في العمر إلا البر وإن الرجل ليحرم الرزق بالذنب يصيبه . رواه ابن ماجه

" اور حضرت ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا تقدیر الٰہی کو دعا کے علاوہ کوئی چیز نہیں بدلتی اور عمر کو دراز کرنے والی چیز نہیں کوئی علاوہ والدین اور قرابت داروں کے ساتھ حسن سلوک ، اور یاد رکھو انسان کو جس سبب سے روزی سے محروم کیا جاتا ہے وہ صرف گناہ ہے جس کا وہ مرتکب ہوتا ہے۔ (ابن ماجہ)
تشریح
" تقدیر" سے مراد تقدیر معلق ہے نہ کہ قضائے مبرم جو اٹل اور ناقابل ترمیم و تبدیل ہوتی ہے لہذا اللہ نے دعا کو جس تقدیر کے بدل دینے کے سبب گردانا ہے وہ تقدیر معلق ہے اور یہ بات بذات خود تقدیر الٰہی ہے یعنی اللہ نے یہ مقدر کیا ہے کہ اگر بندہ دعا کرے گا تو اس کی مصیبت دور ہو جائے گی چنانچہ عالم کے تمام اسباب وسائل قضا قدر الٰہی کے باوجود یہی حکم رکھتے ہیں جیسا کہ حصول شفا کے لئے علاج معالجہ اور دوائیں یا جنت دوزخ میں جانے کے لئے بندوں کے اعمال وغیرہ وغیرہ۔
بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ بندہ کا دعا تدبیر میں برابر مشغول رہنا ، تقدیر کے فیصلہ کو قبول کرنا آسان بنا دیتا ہے اور قسمت کے لکھے پر اس کا دل مطمئن و راضی ہو جاتا ہے یعنی جب بندہ اپنی کسی مشکل میں پھنس کر یا کسی تکلیف سے دوچار ہو کر دعا کرنے میں مشغول رہتا ہے اور پھر آخرکار دیکھتا ہے کہ اب کوئی دعا اور تدبیر کام نہیں کرے گی اور تقدیر کا لکھا اٹل ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ ہو کر رہے گا تو وہ قسمت کے آگے سپر ڈال دیتا ہے اور اپنی تقدیر پر راضی ہو جاتا ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تقدیر وہ فیصلہ اس کے لئے آسان و سبک ہو جاتا ہے اور اس کے دل پر بوجھ ہٹ جاتا ہے اس کے برخلاف اگر اس کی تقدیر کا فیصلہ اس کے سامنے یکا یک آنے اور ہونے والی بات ناگہاں اس پر نازل ہو جائے کہ نہ تو اس کو دعا میں مشغول ہونے کا موقع مل سکے اور نہ کسی تدبیر پر عمل کرنے کی مہلت مل سکے تو تقدیر کا وہی فیصلہ بڑا سخت اور مشکل ہو جاتا ہے اس اعتبار سے فرمایا گیا کہ دعا تقدیر کو بدل دیتی ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق یہ فرماتے ہیں کہ میرے نزدیک اس ارشاد کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ارشاد کے ذریعہ دراصل دعا کی تاثیر کو اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو بطور مبالغہ بیان فرمایا ہے اور مراد یہ ہے کہ قضا و قدر کوئی چیز نہیں بدل سکتی ہاں اگر کوئی چیز اس درجہ کی ہوتی ہے کہ وہ تقدیر کو بدل دے تو وہ دعا ہوتی اس اعتبار سے کہا جائے گا کہ یہ ارشاد اس حدیث کے مثل ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ اگر کوئی چیز تقدیر پر سبقت لے جانے والی ہوتی تو وہ نظر بد ہوتی۔
دراذی عمر سے مراد عمر میں خیر و برکت کا ہونا ہے اور زندگی کا اچھے کاموں فلاحی امور اور حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے راستہ پر گزرنا ہے جیسا کہ پہلی فصل میں اس کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا جا چکا ہے۔
حدیث کے آخری جزء سے ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی اکثریت ہے جو اپنے فسق و فجور ، خدائی احکام سے سر کشی و تمرد اور یہاں تک کہ اپنے کفر و شرک کے باوجود اللہ کے نیک بندوں اور کامل مومنین کے مقابلہ میں زیادہ اچھا کھاتے ہیں اور زیادہ رزق کے مالک ہیں تو پھر اس بات کا معنی کیا ہوں گے انسان اپنے گناہوں کی وجہ سے رزق سے محروم کیا جاتا ہے چنانچہ اس کو دور کرنے کے لئے بعض حضرات نے یہ تاویل کی ہے کہ حدیث میں رزق سے مراد آخرت کا رزق ہے یعنی ثواب اور اس میں کوئی شک نہیں کہ گناہ و معصیت کا ارتکاب اس رزق میں نقصان اور اس سے محرومی کا مطلب ان چیزوں سے محروم ہونا ہے جن کے بغیر مال دولت کی فروانی اور رزق کی وسعت کے باجود انسان کو اندرونی طمانیت و خوشی اور قلبی و روحانی عظمت وب ڑائی عطا نہیں ہوتی جیسے رضا الٰہی کا حصول زندگی کا بے فکری اور سکون کے ساتھ گزرنا، قلب کا فراغ و اطمینان وقت کا یاد الٰہی اور اچھے کاموں میں صرف ہونا رزق کا طیب و پاکیزہ اور روح باطن کا ہر قسم کی کدورت و ظلت سے پاک و صاف ہونا اور یہ وہ اوصاف ہیں جو انسانی زندگی کو حیوۃ طیبہ کا درجہ عطاء کرنے کی وجہ سے عطا ہوتا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے۔ آیت (من عمل صالحا من ذکر اوانثی)…الخ۔ جس نے نیک کام کیا مرد و عورت میں سے اور وہ ایمان رکھتا ہے تو ہم اس سے ضرور اچھی زندگی بسر کرائیں گے۔ اس کے برخلاف اہل فسق و فجور کہ جن کی زندگی شب و روز دنیا کی حرص و ہوس کی کدورتوں اور گناہ معصیت کی ظلمت سے بھرے ہوتے ہیں ان کے وقت کا اکثر و بیشتر حصہ مال و دولت پیدا کرنے کی تعب و مشقت کی نذر ہوتا ہے ان کا قلب مال و زر کے نقصان بربادی کے خوف سے ہر لمحہ متفکر و پریشان رہتا ہے اور مختلف مسائل کے خطرات اور اندیشے ان کی زندگی کو سکون و طمانیت سے محروم کر دیتے ہیں مزید برآن اللہ کی عبادت و طاعت کی نورانیت اور اس کی رحمت سے محرومی ان کو ایسے اندھیروں میں ڈال دیتی ہے کہ وہ بظاہر بڑے خوش حال اور اسباب راحت و آسائش کے مالک ہونے کے باوجود ایک سخت اور مشکل زندگی گزارتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا: من اعرض عن ذکری…الخ۔ جس نے میرے ذکر سے منہ موڑا اس کے لئے زندگی تنگ کر دی جائے گی۔ اسی پر گناہ گار مومن کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ چاہے وہ ظاہری طور پر مال و دولت اور حشمت و تمول رکھتا ہو مگر روحانی و باطنی طور پر اس کی زندگی بھی کچھ کم سخت اور دشوار گزار نہیں ہوتی کم سے کم اتنا ہوتا ہی ہے کہ اگر اس کے اندر ایمان کی روشنی پوری طرح موجود ہے تو ارتکاب گناہ و معصیت کا خوف اس کے قلب پر بہرحال چھایا رہتا ہے اور اس گناہ کی بد انجامی اور آخرت میں مبتلائے عذاب کا کھٹکا یقینا اس کو وحشت زدہ رکھتا ہے اور خواہ اپنی دنیاوی زندگی میں کتنا ہی مطمئن نظر آئے مگر اس کو اپنے اندر اطمینان سکون اور روحانی طمانیت کی محرومی اور ضمیر کی لعنت ملامت سے دوچار رہنا پڑتا ہے حاصل یہ کہ رزق کا مطلب محض پیٹ بھرنے کے ساتھ انسان کے قلبی اطمینان و سکون ، روحانی طمانیت و بشاشت اور اوقات زندگی کے بامقصد و کار آمد گزرنے سے بھی اور یہ چیزیں صرف انہی بندگان اللہ کو نصیب ہوتی ہیں جو صالح عقائد اور پاکیزہ اعمال و کردار کے حامل ہوتے ہیں۔
بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ مذکورہ ارشاد گرامی کا تعلق صرف ان بعض مومنین سے ہے جو نفس کے فریب میں آ کر گناہ ومصیبت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اپنے جن گناہ گاروں بندوں پر حق تعالیٰ کی رحمت متوجہ ہوتی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ ان کو گناہ معصیت کے داغ دھبوں سے پاک و صاف کر کے اس دنیا سے اٹھائے تو ان کو فقر و فاقہ میں مبتلا کر دیتا ہے اور ان کوہ فقر وفاقہ گویا دنیا ہی میں ان کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے یا ان کو کسی ایسی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے ان کو تنبیہ حاصل ہو جاتی ہے اور وہ توفیق الٰہی کی بناء پر اپنے گناہوں سے صدق دلی کے ساتھ توبہ کر لیتے ہیں اس کا حاصل یہ ہے کہ جس مومن نے گناہ و معصیت کا ارتکاب کیا اور حق تعالیٰ کی طرف سے لطف خفی اس کے شامل حال رہا تو وہ فقر و فاقہ یا کسی مرض و تکلیف کے ذریعہ اس گناہ سے پاک وصاف کر دیا جاتا ہے اگرچہ اگر اللہ نخواستہ اس کو اس بات کا بھی مستحق نہیں سمجھا جاتا کہ حق تعالیٰ کا لطف و کرم ، فقر و فاقہ یا کسی آفت و مصیبت ہی کے ذریعہ اس کے گناہوں کو دھو دے تو پھر وہ اپنے حال پر آخر تک گناہوں میں گرفتار رہتا ہے اور اسی حالت میں دنیا سے چلا جاتا ہے اور آخرکار اس کو آخرت میں سزا بھگتنی پڑے گی ۔ نعوذ باللہ۔

یہ حدیث شیئر کریں