مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ جنت اور دوزخ کی تخلیق کا بیان۔ ۔ حدیث 275

حضرت خضر علیہ السلام کا ذکر :

راوی:

وعن أبي بن كعب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " إن الغلام الذي قتله الخضر طبع كافرا ولو عاش لأرهق أبويه طغيانا وكفرا " . متفق عليه

اور حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو مار ڈالا تھا وہ کفر کی طبیعت لے کر پیدا ہوا تھا اگر وہ لڑکا زندہ رہتا تو یقینا اپنے ماں باپ کو کفروسرکشی میں مبتلا کردیتا ( بخاری ومسلم )

تشریح :
کفر کی طبیعت لے کر پیدا ہوا تھا کا مطلب یہ ہے کہ اس کے مقدر میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہوگا پس یہ حدیث اس روایت کے منافی نہیں ہے جس میں فرمایا گیا ہے کل مولود یولد علی فطرت الاسلام ۔ہربچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے کیونکہ فطرت اسلام پر ہونے کا مطلب فطرت انسانی کا ایسی ساخت کا ہونا ہے جو نور ہدایت کی طرف لپکے اور اسلام کو قبول کرنے کی استعداد و صلاحیت رکھتی ہے اور یہ بات اس چیز کے منافی نہیں ہے کہ کوئی نومولود بچہ آگے چل کر اپنے ماحول اور اپنے نفس کی گمراہیوں کا اس طرح شکار ہوجائے کہ اس کی وہ استعدادوصلاحیت دب کر رہ جائے اور وہ اپنی اصل فطرت کے تقاضوں پر قائم نہ رہ سکے یہاں تک کہ اس کا خاتمہ کفر پر ہو ۔
" لفظ " خضر" خ کے زیر کے ساتھ خضر ہے اور ایک نسخے میں یہ لفظ خ کے زیر اور ض کے جزم کے ساتھ خِضر، منقول ہے ، یہ ان کا لقب ہے ، اصل نام لیان ابن ملکان ہے !بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ یہ حضرت الیاس علیہ السلام کے بھائی ہیں ، بعض حضرات نے کہا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے اور بعض نے ان کو یفت واسطہ حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں کہا ہے اور وضاحت کی ہے کہ ان کے باپ سلاطین میں سے تھے ایک قول یہ بھی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں تھے مشہور قول کے مطابق حضرت خضر علیہ السلام پیغمبر ہیں عمر طویل رکھتے ہیں عام نظروں سے پوشیدہ رہتے ہیں اور نہ صرف یہ کہ زندہ ہیں بلکہ قیامت کے دن تک زندہ رہے گے کیونکہ انہوں نے آب حیات پی رکھا ہے لیکن بعض بڑے محدثین جیسے بخاری اور ابن مبارک وغیرہ نے ان کی حیات ابدی کا انکار کیا ہے جمہور علماء صوفیاء اور بہت سے صلحاء ان کی حیات کے قائل ہیں نیز حضرت خضر علیہ السلام کا بعض صلحاء سے ملاقات کا کرنا ان سے ہم کلام ہونا اور خیروبھلائی کی جگہوں پر ان کاموجود ہونا بہت مشہور ہے ، مشائخ کے حالات وکلام میں ان کا بہت ذکر آتا ہے اور عجیب وغریب واقعات بیان کئے جاتے ہیں ۔ حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی کے حالات میں لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت شیخ کسی مسئلہ پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک انہوں نے حضرت خضر علیہ السلام کو ہوا پر سوار گذرتے دیکھا اور فرمایا قف یا اسرائیلی واسمع کلام محمدی " اے اسرائیلی (خضر) ٹھہرئیے کلام محمدی سنتے جائیے ۔"
چنانچہ منقول ہے کہ اس زمانہ کے مشائخ میں سے جو بھی حضرت خضر علیہ السلام کو ملتا ، آپ اس کو ہدایت فرماتے کہ شیخ عبدالقادر کی مجلس میں ضرور جایا کرو کیونکہ ان مجلسوں میں برکتیں نازل ہوتی ہیں اور وہاں فلاح وسعادت حاصل ہوتی ہے ۔

یہ حدیث شیئر کریں