مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان ۔ حدیث 394

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ :

راوی:

وعنه قال : لم يكن رسول الله صلى الله عليه و سلم فاحشا ولا لعانا ولا سبابا كان يقول عند المعتبة : " ما له ترب جبينه ؟ " . رواه البخاري

اور حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو فحش گو تھے نہ لعنت کرنے والے اور نہ بدکلام تھے جب کسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آتا تو بس یہ فرماتے کیا ہوا اس کو جو اس نے یہ بات کہی یا یہ کام کیا ) خاک آلود ہو اس کی پیشانی ۔ (بخاری)

تشریح :
فحش " کے اصل معنی ہیں کوئی بات کہنے یا کسی بات کا جواب دینے میں حد سے بڑھ جانا زیادہ تر اس کا استعمال اس کلام کے لئے ہوتا ہے جس میں اجماع یاجماع سے متعلق باتوں کا کھلم کھلا ذکر ہو! جیسے اوباش وبے حیاء اور بدقماش لوگ باپ کی گندی گالیاں اور شرمناک باتیں بکتے ہیں اور اہل حیاء وشریف لوگ ایسی باتوں کو زبان پر لانا تو درکنار ، ان کو سننا بھی برداشت نہیں کرتے ، بلکہ اگر انہیں اس طرح کوئی بات ضروری بھی کہنا ہوتی ہے تو اس کو اشارے وکنایہ میں کہتے ہیں یہاں تک کہ پیشاب وپاخانہ کا ذکر بھی قضاء حاجت " جیسے مہذب الفاظ میں کنایۃ ًکرتے ہیں ۔ اس طرح " فحش " کا لفظ کثرت وزیادتی ، ہر سخت برے گناہ ، ہر ایک بری اور قبیح خصلت اور زنا کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ۔
" لعن " کے لغوی معنی ہیں ، ہانک دینا ، محروم کردینا ، ذلیل کرنا ، گالی دینا ، لعن یالعنت کی نسبت اگر اللہ تعالیٰ کی طرف ہو تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے پرورگار کا اپنے قرب سے دور کردینا اور اپنی رحمت سے محروم کردینا اور اگر اس لفظ کی نسبت بندے کی طرف ہو تو اس سے مراد ہوتا ہے : برا کہنا اور رحمت الٰہی سے دوری ومحرومی کی بدعا کرنا ۔ مثلا اگر کہیں یہ آئے کہ اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ، یا فلاں پر اللہ کی لعنت نازل ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو اپنے مقام قرب سے دور پھینک دیا اور اپنی رحمت سے دور کردیا اور اگر یہ آئے کہ فلاں شخص نے لعنت بھیجی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس شخص نے اللہ کی رحمت سے دوری ومحرومی کی بدعا کی !واضح رہے کہ اس شخص پر لعنت کرنا جو لعنت کا مستحق نہ ہو سخت گناہ ہے اور بار بار لعنت کرنا تو گناہ کبیرہ ہے نیز علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی معین شخص پر لعنت پر لعنت کرنا حرام ہے اگرچہ وہ کافر ہی کیوں نہ ہو ، ہاں اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ کفر ہی کی حالت میں مرگیا ہے جیسے ابوجہل وغیرہ تو اس پر لعنت کرنا حرام نہیں ہے ، اسی طرح کسی برائی میں مبتلا لوگوں پر عمومی انداز میں لعنت کرنا جیسے یہ کہنا کہ کافروں یا ظالموں ، یا سود خواروں وغیرہ وغیرہ پر اللہ کی لعنت ہو، حرام نہیں ہے ۔ ایک بات یہ بھی جان لینی چاہے کہ " لعنت " کی دو قسمیں ہیں ایک تو رحمت الٰہی اور دخول جنت سے محرومی دوری اور بدی عذاب وتباہی (خلود دوزخ ) کے ابتلاء کی بددعا ، اس قسم کا تعلق بعض درجہ کے گنہگاروں اور بدکاروں سے ہے ۔ ان قسموں کے باہمی فرق کو ملحوظ رکھنے سے اس مسئلہ میں پیدا ہونے والے بہت سے اشکال دور ہوجاتے ہیں !
خاک آلود ہو اس کی پیشانی ۔ یہ جملہ ذلت وخواری اور نگوساری سے کنایہ ہے ۔ مطلب یہ کہ غصہ وناراضگی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے شدید جو ردعمل ظاہر ہوتا تھا وہ بس یہ جملہ تھا جو زبان مبارک سے ادا ہوتا ، اور اس میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست اس شخص کو خطاب نہیں فرماتے تھے جو اس غصہ وناراضگی کا باعث ہوتا ، بلکہ اس کی ذات سے اعراض کرکے غائب کا صیغہ استعمال فرماتے ۔ اسی طرح کا ایک جملہ " خاک آلود ہو اس کی ناک " آتا ہے ، جو اسی معنی اور اسی محل میں استعمال ہوتا تھا ، تاہم واضح رہے کہ دونوں جملے ذو معنیین (دومتضاد معنوں کے متحمل ) ہیں جس طرح ان جملوں کو بدعا پر محمول کرکے ذلت خواری اور نگوساری سے کنایہ کہا جاسکتا ہے اسی طرح ان دونوں جملون کو دعا پر محمول کرکے عبادت وسجدہ ریزی سے کنایہ بھی کہا جاسکتا ہے کیونکہ عبادت اور سجدہ کرنے والے پیشانی اور ناک کو خاک لگتی ہے ، اس صورت میں ان جملوں کامفہوم یہ ہوگا کہ سجد اللہ وجہک (اللہ تعالیٰ تیرے چہرے کو اپنے حضور سجدہ ریزکرے ۔)

یہ حدیث شیئر کریں