مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ آنحضرت کے اخلاق وعادات کا بیان ۔ حدیث 395

اپنے دشمنوں کے حق میں بھی بدعا نہیں فرماتے تھے :

راوی:

وعن أبي هريرة قال : قيل : يا رسول الله ادع على المشركين . قال : " إني لم أبعث لعانا وإنما بعثت رحمة " . رواه مسلم

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (اپنے دشمنوں ) کافروں کے حق میں بددعا فرمائیے ، تاکہ وہ ہلاک ہوں اور ان کی جڑ اکھڑجائے ) تو فرمایا مجھ کو لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے (مسلم )

تشریح :
مجھ کو تو رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف اشارہ فرمایا کہ میں سارے جہاں کے لئے رحمت کا باعث ہوں کیا مؤمن اور کیا کافر ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔
وما ارسلنک الا رحمتہ للعلمین۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو سارے عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے :
اس صورت میں جب کہ سب ہی کے حق میں رحمت کر بھیجا گیا ہوں ، کافروں کے حق میں بددعا کیسے کرسکتا ہوں خواہ وہ میرے کیسے ہی دشمن کیوں نہ ہوں ۔
اہل ایمان کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا باعث رحمت ہونا تو ظاہرہی ہے رہی کافروں کی بات تو ان کے حق میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا باعث رحمت ہونا اس اعتبار سے ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کے دین اور اس کے رسول کی سخت نافرمانی ، سرکشی اور دشمنی کے باوجود محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بابرکت وجود کے باعث ان پر سے دنیا کا عذاب اٹھا لیا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وما کان اللہ لیعذبہم وانت فیہم ۔
اس حالت میں کہ آپ ان کے درمیان موجود ہیں اللہ تعالیٰ ان پر (دنیا میں ) عذاب نازل نہیں کرے گا :
بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس برکت کو حیات مبارکہ تک ہی محدود نہیں رکھا ، ہمیشہ کے لئے اس برکت کو باقی رکھا اور طے فرما دیا کہ کلی استیصال کا عذاب قیامت تک نازل نہیں ہوگا ، جب کہ کتنی ہی گذشتہ امتیں اپنے پیغمبروں کی بددعا کی وجہ سے نیست ونابود کردی گئیں اور ان کا معمولی ساوجود بھی باقی نہ رہا۔
علامہ طیبی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ ہے کہ میں اس لئے نہیں آیا ہوں کہ کسی کو اللہ کی رحمت سے دور کروں بلکہ اس دنیا میں میری بعثت کا مقصد یہی ہے کہ میں اللہ کی نازل کردہ ہدایت ، اپنی تعلیمات اور اخلاق کی طاقت سے لوگوں کو اللہ اور اس کی رحمت کے قریب کروں ، ایسی صورت میں جب کہ کسی کے حق میں بددعا کرنا یا کسی پر لعنت بھیجنا میری شان سے بعید اور میرے حال کے غیر مناسب ہے تو میں ان کافروں کے حق میں بھی کیسے بددعا کروں اور کس طرح ان پر لعنت بھیجوں ۔

یہ حدیث شیئر کریں