مشکوۃ شریف ۔ جلد پنجم ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان ۔ حدیث 574

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ وارثوں کا حق نہیں

راوی:

وعن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : " لا يقتسم ورثتي دينارا ما تركت بعد نفقة نسائي ومؤنة عاملي فهو صدقة " . متفق عليه

اور حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : " میری وفات کے بعد میرے وارث دینار نہیں بانٹیں گے ، میرا جو کچھ بھی ترکہ ہوگا وہ عورتوں کے خرچ اور عامل کی اجرت کے بعد باقی سب صدقہ ہوگا ، (بخاری ومسلم )

تشریح :
میرے وارث دینار نہیں بانٹیں گے " یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی طور پر خبر دینا ہے کہ میں اپنے ترکہ میں کوئی دینار ودرہم نہیں چھوڑوں گا ، اور جب میں کوئی دینار ودرہم چھوڑوں گا ہی نہیں تو میرے مرنے کے بعد میرے ورثاء کے درمیان دینار ودرہم تقسیم ہونے کی نوبت بھی نہیں آئے گی یا یہ کہ جملہ ظاہری اسلوب کے اعتبار سے تو خبر دینے کے طور پر ہے مگر حقیقت میں نہی (ممانعت ) کا مفہوم رکھتا ہے جس کا مطلب یہ ہوگا میں جو کچھ چھوڑ کر جاؤں اس کو میرے ورثاء آپس میں تقسیم نہ کریں، اور پھر آگے اس کی ممانعت کی علت بیان فرمائی کہ میرا سارا ترکہ میری بیویوں کے مصارف اور میرے عاملوں کی اجرت کے بعد باقی سب صدقہ ہوگا ۔ واضح رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا حکم وہ نہیں جو عدت والی عورتوں کا ہوتا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی اور سے نکاح کرلینا جائز نہیں تھا ، اس لئے ان کے خرچ کی کفالت اور ان کا نفقہ پورا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ترکہ سے متعلق رہا ۔ نیز " عامل " سے مراد وہ حضرات ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسند خلافت پر فائز ہوئے ۔ پس ارشاد گرامی کا حاصل یہ ہوا کہ میرے ترکہ میں سے میری بیویوں کا نفقہ پورا کیا جائے اور میرے خلفاء بھی اپنے مصارف میں خرچ کریں ، اور پھر جو باقی رہے اس کو فقراء ومستحقین پر صرف کیا جائے جیسا کہ میں صرف کیا کرتا تھا ۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اہل وعیال کانفقہ " صفایا " کی آمدنی سے پورا کرتے تھے ۔ جو بنی نضیر کی جائیداد میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے اور فدک کی زمین پر مشتمل تھا ، بقدر نفقہ لینے کے بعد آمدنی کا باقی تمام حصہ مسلمانوں کے مصالح ومصارف میں خرچ فرماتے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مذکورہ زمین جائیداد کے متولی حضرت عثمان غنی خلیفہ ہوئے اور وہ اپنے ذاتی مال ودولت کی وجہ سے اس زمین جائیداد کی آمدنی سے مستغنی رہے ۔ تو انہوں نے وہ ساری زمین جائیداد اپنے اقا رب میں سے مروان وغیرہ کو عطا کردی ، جس پر وہ لوگ قابض رہے یہاں تک حضرت عمر ابن عبد العزیز خلیفہ ہوئے تو انہوں نے مروان وغیرہ کے ورثاء سے اس زمین جائیداد کو واپس لے کر حسب سابق مصارف کے لئے مخصوص کردیا ۔

یہ حدیث شیئر کریں